Naqad o Nazar 13 September 2013

13-Sep-2013
جمعۃ المبارک
آج افکار پاکستان کے نیٹ ورک میں "بھکر" سے نوجوان شاعر "رانا عامر عثمان" کا کلام  سلسلہ "نقد و نظر" میں تنقیدی و اصلاحی نظر کیلئے پیش کیا گیا۔ جس پر افکار کے تمام ممبران نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا

کلام:
موسمِ وصل میں تیری صحبت کا اثر یوں بھی تھا
ہزار اُلجھنیں تھیں مگر کچھ سکُوں بھی تھا

ایک مُدت کے بعد وہ مجھے کل مِلا تھا شرمندہ سا
لب خاموش تھے ندامت سے، سرنگوں بھی تھا

تیرے شہر والوں نے کِس رشتے سے مُجھے رُسوا کیا
تیری بات اور تھی تیرا تو کُچھ لگوُں بھی تھا

مُجھے دیکھا تو مُجھے پہچان کیوں نہیں پایا؟
میرے مستقل درد میں یہ اِک سوال "کیوں" بھی تھا

تیری محفل میں رقیبوں کے چلن ٹھیک نہ تھے
تیرے لیئے خاموش رہا، ورنہ میں کُچھ کہوُں بھی تھا



کچھ احباب کے خیال پیش ِ خدمت ہیں:

جواد ناصر: رانا عامر عثمان صاحب! تغزل سے بھرا کلام عطاء کیا آپ نے، بہت عُمدہ اور پُختہ اشعار ہیں مُجھے تو داد کے لیئے الفاظ نہیں مِل رہے، کمال اندازِ تکلم ہے۔ بھائی کیلئے بہت دعائیں۔ جواد ناصر

محمد وقاص اعظم: السلام علیکم، رانا عامر عثمان صاحب کی ٰغزل کا خیال بہت اچھا ہے، لیکن میرے ناقص علم کے مطابق اس غزل کے کچھ مصرعوں کے علاوہ باقی تمام مصرعے وزن اور بہر سے بھٹکے ہوئے لگ رہے ہیں، میرا ناقص خیال ہے کہ تمام مصرعے کسی بھی ایک بہر میں نہیں بیٹھ رہے - محمد وقاص اعظم

مبشر حسن: عامر عثمان صاحب! ایک شعر مکمل ایک نظم ہوتا ہے، آپ جانتے ہیں اور اس نظم کیلئے الفاظ کے چناو، بندش کی مہارت اور خیال کی خوبصورتی درکار ہوتی ہے۔ عروض، شاعری کا لازم و ملزوم جزو ہے۔ مشق ِ سُخن جاری رکھیں اور اچھا کہنے کی کوشش کریں۔ مبشر حسن

زاہد توقیر: السلام علیکم، رانا صاحب کی غزل کے تمام شعروں میں اوزان کی کمی ہے، میں وقاص اعظم صاحب کے خیال سے متفق ہوں۔ زاہد توقیر

0 comments:

Post a Comment