Munir Toor Sahib ki Ghazal
جبلتوں کی نموُد میں، خد و خال بن کر پڑا ہوُ ا ہوُں
میں زندگی کے حصار میں اِک سوال بن کر پڑا ہوا ہوں
مری دھمک دم بہ دم جہاں میں سنائی دیتی رہے گی تم کو
جمود مجھ پر نہیں ہے ممکن رواں مرا ارتقاء ہے
میں اپنے خلیات کی بُنت میں خیال بن کر پڑا ہوا ہوں
اداسیوں کی شباہتوں میں بشاشتوں کی جھلک کی صورت
مفارقت کی سپردگی میں وصال بن کر پڑا ہوا ہوں
یہ کن فکاں کا ہے کارخانہ نگارشوں کا نگارخانہ
میں کنجِ ہستی میں آپ اپنی مثال بن کر پڑا ہوا ہوں
نہیں کسی کو شعور میرا، ابھی ہے باقی ظہور میرا
کسی ادھورے وجود میں میَں کمال بن کر پڑا ہوا ہوں
منیر جب اُٹھ کھڑا میں، کوئی نہ پھر مُجھ سے بچ سکے گا
میں ناتوانی کی حالتوں میں مجال بن کر پڑا ہوا ہوں
شاعر: منیر طور
افکار پاکستان











0 comments:
Post a Comment