Sabhi Fasilon Ko Mitana Pary Ga

سبھی فاصلوں کو مِٹانا پڑے گا
زمیں آسماں کو مِلانا پڑے گا

مرے شوق کے ہیں اِرادے سفر میں
یہ زنجیرِ پا کو بتانا پڑے گا


جو کہنے کو ہونٹوں کو جنبش نہیں ہے
وہ اب خامشی کو سُنانا پڑے گا

سُنا ہے حسیں خواب مہنگے بِکیں گے
مرے خواب میں تُجھ کو آنا پڑے گا

یہی شب کے آنگن میں طے ہوگیا تھا
یہاں ایک سُورج اُگانا پڑے گا

شاعر: زعیم جعفری، چیئرمین افکار پاکستان

0 comments:

Post a Comment